عوامی جلسے سے خطاب


کراچی کو بائی پاس کرنے والوں نے پاکستان کی ترقی کو بائی پاس کر دیا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی

پاکستان کو بچانا ہے تو جنہوں نے پاکستان بنایا اور چلا کر دکھایا انکے حوالے کرنا ہوگا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی

دنیا کو نوجوانوں کی ضرورت ہے لیکن ہمارے نوجوان نہیں جا پارہے کیونکہ انکی تعلیم عالمی معیار کی نہیں، سید مصطفیٰ کمال

5فیصد کے ووٹ پر زبردستی اپنا میئر بٹھا کر کراچی پر قبضہ کا خواب پورا نہیں ہوگا، ڈاکٹر فاروق ستار

کراچی۔۔۔04نومبر2023ء 

کراچی والے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر پورے پاکستان کا پیٹ پال رہے ہیں، پاکستان کو بچانے کے لیے پہلی شرط یہ ہے جو پال رہا ہے پہلے اسے بچانا ہوگا، کراچی کو بائی پاس کرنے والوں نے پاکستان کی ترقی کو بائی پاس کر دیا جنہوں نے کراچی کو اس نہج تک پہنچایا ہے انکا دماغ درست کرنا بھی ضروری ہے ان خیالات کا اظہار ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے برنس روڈ ٹاؤن کے زیرِ اہتمام عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں منعقد عوامی جلسے سے خطاب کے دوران کیا انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو بچانا ہے تو جنہوں نے پاکستان بنایا اور چلا کر دکھایا انکے حوالے کرنا ہوگا، پاکستان کے موجودہ آئین نے غیر جمہوری اسمبلی کو جنم دیا 1970ء کی اسمبلی میں بنایا گیا آئین نہ تو پاکستان کو تحفظ دے سکا نہ پاکستانیوں کو اگر اس آئین کو اسمبلیوں کے زریعے درست نہ کیا گیا تو پھر سڑکوں پر فیصلے ہونگے۔ موجودہ آئین اگر عوام کے حقوق کا دفاع نہیں کر سکتا تو ایسے آئین کو ختم کردیا جانا چاہئے 
موجودہ آئین کو جب تک جمہوریت کہتے رہیں گے پاکستان نہیں بدلے گا، اس موقع پر سینئر ڈپٹی کنوینر سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آنے والا وقت ایم کیو ایم پاکستان کا ہے، ظلم کے خاتمے کا ہے پانی، سیوریج، پارک، ہسپتال، اسکولوں کے مسائل آج کی ایم کیو ایم 6مہینے میں حل کر سکتی ہے۔ موجودہ لوگ بھی اگر حرام کھانا چھوڑ دیں تو کراچی کو ٹھیک کر سکتے ہیں کراچی کے مسائل کا اب مستقل حل کرنا ہوگا۔ انفراسٹرکچر ٹھیک کرنا وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کا کام نہیں بلکہ مقامی منتخب نمائندوں کا کام ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں بااختیار بلدیاتی نظام موجود ہے۔ یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ مدت ختم ہونے کے بعد پانچ پانچ سالوں تک انتخابات نہیں کروائے جاتے 15سالوں میں سندھ حکومت 22ہزار ارب روپے ملے ہیں یہ اتنے پیسے ہیں کہ 50مرتبہ سندھ کو بلڈوز کر کے دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے صرف کراچی ہی نہیں پورے سندھ میں کوئی کام نہیں کیا۔ ہم تین آئینی ترامیم چاہتے ہیں جس سے اختیارات اور وسائل عوام کی دہلیز تک پہنچیں۔ پہلا منتخب نمائندوں کے اختیارات اور ڈپارٹمنٹ آئین میں لکھے جائیں، دوسرا پی ایف سی ایوارڈ کے زریعے صوبوں کے بجائے ڈسٹرکٹ کو براہِ راست رقم دی جائے، تیسرا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بلدیاتی انتخابات سے مشروط کیا جائے پاکستان کے معاشی مسائل کا حل آئی ایم ایف نہیں بلکہ نوجوانوں کو صحیح تعلیم اور ہنر دے کر دنیا بھر میں کمانے کے قابل کرنا ہے۔ دنیا کو نوجوانوں کی ضرورت ہے لیکن ہمارے نوجوان نہیں جا پارہے کیونکہ انکی تعلیم عالمی معیار کی نہیں۔ ہماری آئی ٹی ایکسپورٹ 3.4 فیصد ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت کی سالانہ ایکسپورٹ 227ارب ڈالر ہے، دنیا کی 25بڑی کمپنیوں کے 5ٹریلین روپوں پر بھارتیوں کا اثر و رسوخ ہے جبکہ سینئر ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کراچی ملک کا معاشی دارلخلافہ ہے تو ضلع جنوبی کراچی کا مالی مرکز ہے، 1971ء میں جمہوریت کی آڑ میں جب آمریت قائم ہوئی سب سے پہلے سندھ کے شہری علاقے بلخصوص کراچی کو نشانہ بنایا گیا، ہماری درسگاہوں نوکریوں پر کوٹہ سسٹم لگا کر ہمارے جائزحقوق سلب کیئےگئے۔ کوٹہ سسٹم لگانے والوں کو سب سے بڑی مخالفت کا سامنا برنس روڈ سے کرنا پڑا تھا۔ یہاں کی ماؤں بہنوں نے آمروں کا بوریا بسترا گول کر دیاتھا۔ 4ہزار ارب کا ٹیکس دے کر کراچی کو 40ارب کی خیرات دی جاتی ہے جبکہ کم از کم 400ارب ملنا چاہیے۔ 5فیصد کے ووٹ پر زبردستی اپنا میئر بٹھا کر کراچی پر قبضہ کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ ملیر، اورنگی اور لیاقت آباد کے عوامی جلسوں کے بعد برنس روڈ کے فیصلے نے مخالفین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی جدوجہد کر رہے ہیں کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا۔ مُلک میں ہونے والی دہشتگردانہ کاروائیوں پر ہم اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں